Sunday, 28 August 2022

باتوں سے تیری بات کی خوشبو نکل پڑے

 باتوں سے تیری بات کی خوشبو نکل پڑے

پہچان کا کہیں کوئی پہلو نکل پڑے

کم کم کہوں میں شعر سناؤں بہت ہی کم

کیا جو کسی غزل سے کبھی تو نکل پڑے

اس بار اس نے آپ سے تم کہہ دیا ہمیں

ایسی خوشی کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے

کہتے ہیں روشنی کی حفاظت کریں گے ہم

سورج کی دیکھ بھال کو جگنو نکل پڑے

افلاس کے لباس میں یہ بات ہے اگر

شاہانہ آن بان سے اردو نکل پڑے

جب دین کی مدد کو پکارا گیا حفیظ

پھانکا نہ اپنے ہاتھ کا ستو نکل پڑے


حفیظ مومن

No comments:

Post a Comment