Monday, 29 August 2022

ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے

 ہے شور ساحلوں پر؛ سیلاب آ رہا ہے

آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے

بس ایک جسم دے کر رخصت کیا تھا اس نے

اور، یہ کہا تھا؛ باقی اسباب آ رہا ہے

خاکِ وصال کیا کیا صورت بدل رہی ہے

سورج گزر چکا ہے،۔ مہتاب آ رہا ہے

پانی کے آئینے میں کیا آنکھ پڑ گئی ہے

دریا میں کیسا کیسا گرداب آ رہا ہے

آنکھوں کی پیالیوں میں بارش مچی ہوئی ہے

صحرا میں کوئی منظر شاداب آ رہا ہے


فرحت احساس

No comments:

Post a Comment