ہے شور ساحلوں پر؛ سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے
بس ایک جسم دے کر رخصت کیا تھا اس نے
اور، یہ کہا تھا؛ باقی اسباب آ رہا ہے
خاکِ وصال کیا کیا صورت بدل رہی ہے
سورج گزر چکا ہے،۔ مہتاب آ رہا ہے
پانی کے آئینے میں کیا آنکھ پڑ گئی ہے
دریا میں کیسا کیسا گرداب آ رہا ہے
آنکھوں کی پیالیوں میں بارش مچی ہوئی ہے
صحرا میں کوئی منظر شاداب آ رہا ہے
فرحت احساس
No comments:
Post a Comment