ٹھنڈی سوندھی ہواؤں جیسا ہے
دھوپ میں مجھ کو چھاؤں جیسا ہے
اتر آتی ہے روح تک تاثیر
لہجہ اس کا شفاؤں جیسا ہے
مجھ کو ساحل کی فکر کیونکر ہو
ساتھ وہ نا خداؤں جیسا ہے
اس کا اسلوب مجھ سے یوں کہہ لو
عشق کی انتہاؤں جیسا ہے
دور رہ کر گزارنا اک پل
اب تو لگتا سزاؤں جیسا ہے
اس تعلق کو دوں میں کیا تشبیہ
ذکر اس کا وفاؤں جیسا ہے
طاہرہ زندگی کی راہوں میں
وہ سراپا دعاؤں جیسا ہے
طاہرہ مسعود
No comments:
Post a Comment