Tuesday 30 August 2022

کس وہم میں اسیر ترے مبتلا ہوئے

 کس وہم میں اسیر ترے مبتلا ہوئے

کب اہلِ شوق دامِ وفا سے رہا ہوئے

آزاد ہو کے اور بھی بے دست و پا ہوئے

کس دردِ لا علاج میں ہم مبتلا ہوئے

دل دادگان بادیۂ صر صر و سموم

شہزادگان ملکِ نسیم و صبا ہوئے

کرتے نہ تھے جو ساحل و دریا میں امتیاز

کشتی بھنور میں آئی تو وہ ناخدا ہوئے

رستہ دکھا سکا نہ جنہیں نورِ آفتاب

جلنے لگے چراغ تو وہ رہنما ہوئے

پامردئ یقیں سے جو محروم ہیں وہ لوگ

اپنے رفیق راہ ہوئے بھی تو کیا ہوئے

کس شان سے گئے ہیں شہیدانِ کوئے یار

قاتل بھی ہاتھ اٹھا کے شریک دعا ہوئے

یکسانئ حیات سے گھبرا گیا ہے دل

مُدت گزر گئی کوئی طوفاں بپا ہوئے


حمید جالندھری

No comments:

Post a Comment