اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
اندھیری رات میں
ایک گھٹڑی سنبھالے
چند زیوراور کچھ کپڑے لیے
اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
ماں کے جُھریوں زدہ چہرے پر
اک نظر ڈالی، اور ٹھٹکی
باپ کے محنت کش ہاتھوں کو
اک لمحہ دیکھا، اور جھجکی
مگر پیا کی یاد ہر زنجیر کاٹ گئی
اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
اندھیری رات میں پیا کی یادوں کے سہارے
چلی وہ انجان منزلوں کی جانب
لچکتی، جھجکتی، گھبرائی، شرمائی سی وہ مسافر
اپنا سب کچھ چھوڑ آئی
ہاں، اک شخص کے لیے
وہ شخص جو اس کا محبوب ہے
چند میٹھے بولوں کی رسِیلی بوند
کتنی بڑی خلیج پاٹ گئی
اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
کیا میٹھے بول اور محبت بھرے جملے
اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ
زندگی کے ہر رشتے کو
لمحوں میں انجانا کر دیتے ہیں
پھر اگر واقعی ایسا ہے تو
میری زندگی تو بے کار گئی
اے پگلی! تُو کیوں گھر سے بھاگ گئی
عثمان غازی
No comments:
Post a Comment