تیری یادوں کے روزہ دار ہوئے
تیری فُرقت کا ہم شکار ہوئے
جامِ چشمِ غزال سے پیتے ہم
صوم ایسے نہ پر افطار ہوئے
تیر ایسے چلائے نظروں کے
کہ سینہ و دل سے آر پار ہوئے
طاق راتوں میں وصل کی خواہش
اسی جستجو میں شب بیدار ہوئے
تیری یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا
بس اسی کام میں بے کار ہوئے
لوگ پڑھتے ہیں میرے چہرے کو
جیسے ہم آج کا اخبار ہوئے
عید پر ملنے کا وعدہ کیا ہے اس نے
اب تو یہ بھی قیامت کے آثار ہوئے
وقاص حیدر
No comments:
Post a Comment