Monday, 29 August 2022

کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں

 کہاں، اور کب، کب اکیلا رہا ہوں 

میں ہر روز ہر شب اکیلا رہا ہوں 

مجھے اپنے بارے میں کیا مشورہ ہو 

میں اپنے لیے کب اکیلا رہا ہوں؟

اداسی کا عالم یہاں تک رہا ہے

میں ہوتے ہوئے سب اکیلا رہا ہوں

یہاں سے وہاں تک اِدھر سے اُدھر تک

میں ٭پشچم سے پورب اکیلا رہا ہوں

بہت حوصلہ مجھ کو میں نے دیا ہے 

میں روتے ہوئے جب اکیلا رہا ہوں

تِری ذات مجھ سے جدا ہی رہی ہے

میں تب ہو کہ یا اب، اکیلا رہا ہوں


ناصر راؤ

٭پشچم: پچھم

No comments:

Post a Comment