منزل دور ہے اب تک
مثالِ کارواں چلتا ہی رہتا ہے
کہیں پر سست رو ہوتا
کہیں سیلِ بلا ہوتا
کبھی قسعت میں بستی اور بیاباں کو
لبھاتا ہے کشش سے
گرمجوشی سے وہ ہر اک کو
گلے ملتا ہے وہ اک سرکوشی سے اور
سما جاتا ہے ہستی کی ہر اک شے میں
نمو دیتا ہے ہر اک جزوِ ہستی کو
مگر رہتا رواں ہے وہ
بھلا رکتا کہاں ہے وہ
اگر پانی ٹھہر جائے، تعفّن دینے لگتا ہے
حیات اس کی سفر میں ہے
حیات اپنی سفر میں ہے، تو یہ جانا
کہ سمجھوتہ، محبت اور حرکت کی جنوں خیزی
ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کی جرأت
اصولی اتفاق اجزائے ہستی میں
چھپی ہے داستاں اک شادکامی کی
چلو آؤ، چلیں پم سب سفر پر اب
کہ منزل دور ہے اب تک
حمیدہ معین رضوی
No comments:
Post a Comment