Monday 29 August 2022

زمانے بھر کا جو فتنہ رہا تھا

 زمانے بھر کا جو فتنہ رہا تھا

وہی تو گاؤں کا مُکھیا بنا تھا

مِری شہرت کے پرچم اُڑ رہ تھے

مگر میں دُھوپ میں تنہا کھڑا تھا

ہزاروں راز تھے پوشیدہ مجھ میں

میں اپنے آپ سے چُھپ کر کھڑا تھا

بہت سے لوگ اس کو دیکھتے تھے

وہ اونچے پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا

پرانا تھا مداری کا تماشا

مگر وہ بھیڑ تھی رستا اڑا تھا

فسادی تھے مِرے ہی گھر میں انجم

میں ان کو شہر بھر میں ڈھونڈتا تھا


انجم عباسی

No comments:

Post a Comment