اقتباس از نظم کوثر العلوم
یہ کیسی دھوم ہے باغ جہاں میں آج اے ہمدم
گلوں سے بلبل نالاں گلے ملتی ہے کیوں پیہم
خوشی سے کیوں ترانے گا رہی ہیں قمریاں باہم
برستا ہے یہاں پر ابرِ رحمت آج کیوں چھم چھم
ہوئے جاتے ہیں گُل جامے سے باہر شادمانی سے
ہوئی جاتی ہے بلبل مست اپنی نغمہ خوانی سے
خرامِ ناز سے بادِ بہاری آج آتی ہے
بنا کر ہار پھولوں کا چمن میں ساتھ لاتی ہے
چمن میں ہر طرف سے یہ مبارکباد آتی ہے
مبارک ہو، بہارِ بے خزاں گلشن میں آتی ہے
پلا دے ایک ساغر ساقئ رنگیں بیاں مجھ کو
تیری آنکھوں کے صدقے دے شرابِ ارغواں مجھ کو
بتا دے عالمِ اسرار کے رازِ پنہاں مجھ کو
پلا دے مئے عرفاں کہ کر دے بے نشاں مجھ کو
مضامیں کا چلا ہے دل سے اک قلزم رواں ہو کر
میرے عجز و بیاں نے سر اٹھایا آسماں ہو کر
تخیل کے ہے سینے میں مضامیں کی فراوانی
تصور کے خزانے میں ہے تصدیقوں کی ارزانی
طیب قاسمی گنگوہی
No comments:
Post a Comment