ہمیں لپٹنے کو دیوار و در نہیں آئے
کسی مکان میں آئے ہیں گھر نہیں آئے
پلٹ کے آ گیا تُو بھی تیری محبت بھی
مگر وہ پندرہ برس لوٹ کر نہیں آئے
میاں یہ آنکھیں ہمیں واپسی پہ چاہئیں تھیں
ہم اس لیے بھی اسے دیکھ کر نہیں آئے
شناخت کرتیں ہیں سینے کے زخم سے مائیں
کہ دھڑ تو آئے ہیں بیٹوں کے سر نہیں آئے
نجانے کون یہاں سے چلا گیا تابش؟
کہ گھر پہنچ کے بھی لگتا ہے گھر نہیں آئے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment