Sunday, 28 August 2022

ذرا سی بات پہ اتنا جلال کیوں آیا

 ذرا سی بات پہ اتنا جلال کیوں آیا

تعلقات کے شیشے میں بال کیوں آیا

کسی بزرگ کی صحبت ہے تم کو کیا معلوم

مِرے مزاج میں یہ اعتدال کیوں آیا

زمیں پہ آ گیا مغرور یہ خبر بھی ہے

ترقیات کو اس کی زوال کیوں آیا

اسے گنوانے کا پچھتاوا گر نہیں تجھ کو

تِری زبان پہ لفظ ملال کیوں آیا

چلو یہ مانا شکاری نہیں ہے صوفی ہے

بغل میں اپنی دبا کر وہ جال کیوں آیا

بچھڑ کے بھی تو تصور میں تیرے آؤں گا

مگر بچھڑنے کا تجھ کو خیال کیوں آیا

جو اہلِ ہوش کو دیوانہ ہی بناتا ہے

نظر کے سامنے وہ با کمال کیوں آیا

گیا تھا سوچ کے مل کر ہی اس سے آؤں گا

نظیر لوٹ کے اتنا نڈھال کیوں آیا


نظیر میرٹھی

No comments:

Post a Comment