ذرا سی بات پہ اتنا جلال کیوں آیا
تعلقات کے شیشے میں بال کیوں آیا
کسی بزرگ کی صحبت ہے تم کو کیا معلوم
مِرے مزاج میں یہ اعتدال کیوں آیا
زمیں پہ آ گیا مغرور یہ خبر بھی ہے
ترقیات کو اس کی زوال کیوں آیا
اسے گنوانے کا پچھتاوا گر نہیں تجھ کو
تِری زبان پہ لفظ ملال کیوں آیا
چلو یہ مانا شکاری نہیں ہے صوفی ہے
بغل میں اپنی دبا کر وہ جال کیوں آیا
بچھڑ کے بھی تو تصور میں تیرے آؤں گا
مگر بچھڑنے کا تجھ کو خیال کیوں آیا
جو اہلِ ہوش کو دیوانہ ہی بناتا ہے
نظر کے سامنے وہ با کمال کیوں آیا
گیا تھا سوچ کے مل کر ہی اس سے آؤں گا
نظیر لوٹ کے اتنا نڈھال کیوں آیا
نظیر میرٹھی
No comments:
Post a Comment