Monday 29 August 2022

پانی پانی کے اک شور میں کتنی چیخیں ڈوب گئیں

 پانی پانی کے اک شور میں کتنی چیخیں ڈُوب گئیں

پہلے کچھ آوازیں ابھریں، آخر سانسیں ڈوب گئیں

کون سدھائے بپھرا پانی،۔ کون اُسارے مٹی کو

دریاؤں پر پُشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں

پانی کا عفریت اُچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا

بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں

پتھر کوٹنے والے ہاتھوں میں بچوں کے لاشے تھے

شہر کو جانے والی ساری ٹُوٹی سڑکیں ڈوب گئیں

بربادی پر گِریہ کرنے کی مہلت بھی پاس نہ تھی

آنسو بہنے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں ڈوب گئیں

بستی میں کُہرام مچا تھا، آدم روزی مانگ رہا تھا

رازق، رازق کہتے کہتے سب کی نبضیں ڈوب گئیں

نیرؔ! جگ کی اونچ نیچ نے پانی کا رُخ موڑ دیا

تیری مِل تو وہیں کھڑی ہے، میری فصلیں ڈوب گئیں


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment