Monday 29 August 2022

یہ غضب ناکئ قدرت کیا ہے

 کون کہ سکتا ہے

کس وقت خدا برہم ہو

اور پھر ابرِ کرم، ابرِ مصیبت بن جائے

ہے کوئی علم؟ کوئی فکر؟

کوئی صاحبِ دل؟

جو بتا سکتا ہو؛ معروضِ مشیّت کیا ہے؟

جن غریبوں کے مکاں لے گئے بپھرے دریا

ان کے حق میں یہ غضب ناکئ قدرت کیا ہے؟

کیا یہی طے ہے؟

کہ جب قہر گِرے، ان پہ گِرے؟

وہ معیشت کے ہوں

یا قدرتی آفات کے زخم

بس یہی چاک گریباں ہیں جو یہ بُھگتیں گے؟

مثلِ مشہور کہ ہاں؛ صبر کا پھل میٹھا ہے

کیا یہ پھل صرف غریبوں کے لیے ہوتا ہے؟

ہم غریبوں کی تواضع کو یہی پھل ے کیا؟

اس جہانگیر اذیت کا یہی حل ہے کیا؟

تجھ سے تو خیر مجھے کوئی شکایت ہی نہیں

تیری قدرت تو ہر اک کے لیے یکساں ٹھہری

یہ سوالات تو ان زہر فروشوں سے ہیں جو

فکر کے نام پہ تخریبِ خرد بیچتے ہیں

جو غریبوں کو سکھاتے ہیں مشیت کے اصول

اور امیروں کو سخاوت کی سند بیچتے ہیں

یہ لڑائی تو ہے ان رجعتی طاغوتوں سے

جو کہ تقسیم کی مسند کے خدا ٹھہرے ہیں

جو کہ دھرتی کے لیے ننگ ہیں لیکن از خود

بر سرِ عام خدائی کی ادا ٹھہرے ہیں

بحر و بر مِلکِ خدا است مگر قابض کون؟

کس خداوند کا فرماں ہے کہ؛ تم ظلم کرو؟

کس نبیؑ نے یہ کہا؛ پیٹ منافع سے بھرو؟

اس کی قدرت کے خزانے ہیں برائے ہر جاں

کون ہو تم کہ جو خود کے لیے مخصوص کرو؟

ربِ جاناں کی قسم

محنتِ انساں کی قسم

تم نہیں چاہتے انساں کا بھلا ہو جائے

لوگ بپھرے ہوئے پانی میں بھلے ڈوب مریں

تم تو محفوظ ہو جاگیریں بچا کر اپنی

لیکن اے جملہ خبیثان و رئیسانِ زمیں

وقت آتا ہے کہ اب تم بھی دُہائی دو گے

تم کہ جو قاسمِ جمہور بنے پھرتے ہو

اپنے ہر ظلم پہ اب آپ صفائی دو گے


علی زریون

اللہ پاک سیلاب سے متاثرہ عام کی مدد فرمائے،آمین۔ بارش اللہ کی رحمت ہے لیکن اگر یہی زحمت بن جائے تو عام لوگوں کے لیے اللہ کا عذاب بن جاتی ہے، اللہ کی نافرمانی کوئی کرتا ہے لیکن پس عوام جاتے ہیں۔ اس پر علی زریون کی ایک نظم یاد آ گئی، سوچا آپ سے بانٹی جائے۔

No comments:

Post a Comment