زندگی کا سفر یہ کیسا ہے
کوئی منزل نہ کوئی رستہ ہے
اہلِ دل بے سبب بھٹکتے ہیں
جستجو بے کنار صحرا ہے
دوستی کا یہ رشتہ سمجھو تو
خون کے رشتے سے بھی گہرا ہے
سچ ہی کہتے ہیں یہ سیانے بھی
آدمی بھیڑ میں بھی تنہا ہے
سانس جم سی گئی ہے سینے میں
اشک پلکوں پہ کوئی ٹھہرا ہے
کیا یہاں بھی وحوش بستے ہیں
شہر میں کس لیے یہ پہرہ ہے
شہریاروں کو کیا غرض آزر
کون مرتا ہے کون زندہ ہے
آزر جمال
No comments:
Post a Comment