کبھی اپنوں نے منہ پھیرا کبھی یاران بدلے ہیں
ذرا سا وقت کیا بدلا کہ سب انسان بدلے ہیں
سکوں پھر بھی نہ مل پایا ہمارے قلبِ مضطر کو
اگرچہ اس کی خاطر سینکڑوں سامان بدلے ہیں
یہ دنیا چار دن کی ہے سنبھل جا وقت ہے اب بھی
کہ دولت نے ہزاروں کے یہاں ایمان بدلے ہیں
نہ دنیا ہی ملی ان کو نہ محشر ان کے ہاتھ آیا
ذرا سے مال کے لالچ میں جو نادان بدلے ہیں
نصیحت کا اثر ان پر کبھی ہو گا، نہ ہوتا ہے
کبھی بدلے جو بدلیں گے کبھی شیطان بدلے ہیں
زمیں ایسی کی ایسی ہے فلک ایسے کا ایسا ہے
اگر بدلے ہیں دنیا میں تو بس انسان بدلے ہیں
مِرے نزدیک بھی عاجز! نہیں آتی پریشانی
مِری ماں کی دعاؤں نے رخِ طوفان بدلے ہیں
عاجز بھوپالی
No comments:
Post a Comment