یہ کتنا سچ ہے دیکھیں گے کہ وہ کیسے لگاتے ہیں
سنا ہے خوبصورت لوگ زخم اچھے لگاتے ہیں
مسافت میں الگ دستور ہے میرے قبیلے کا
جہاں پانی نہیں ہوتا، وہاں خیمے لگاتے ہیں
مقفّل در سوالی کے جگر کو چیر دیتا ہے
گلی کے لوگ دروازوں پہ کیوں تالے لگاتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے وحشت اور کیا ہو گی کہ جنگل سے
ہم اپنے گھر کی ویرانی کے اندازے لگاتے ہیں
ستم یہ ہے مُصلّوں پر گھروں کی سوچنے والے
ہم ایسے وحشیانِ عشق پر فتوے لگاتے ہی
ہم اپنے جسم کے سائے کو سورج کے وسیلے سے
کبھی آگے لگاتے ہیں، کبھی پیچھے لگاتے ہیں
راکب مختار
No comments:
Post a Comment