Tuesday, 30 August 2022

یہ کتنا سچ ہے دیکھیں گے کہ وہ کیسے لگاتے ہیں

 یہ کتنا سچ ہے دیکھیں گے کہ وہ کیسے لگاتے ہیں

سنا ہے خوبصورت لوگ زخم اچھے لگاتے ہیں

مسافت میں الگ دستور ہے میرے قبیلے کا

جہاں پانی نہیں ہوتا، وہاں خیمے لگاتے ہیں

مقفّل در سوالی کے جگر کو چیر دیتا ہے

گلی کے لوگ دروازوں پہ کیوں تالے لگاتے ہیں

اب اس سے بڑھ کے وحشت اور کیا ہو گی کہ جنگل سے

ہم اپنے گھر کی ویرانی کے اندازے لگاتے ہیں

ستم یہ ہے مُصلّوں پر گھروں کی سوچنے والے

ہم ایسے وحشیانِ عشق پر فتوے لگاتے ہی

ہم اپنے جسم کے سائے کو سورج کے وسیلے سے

کبھی آگے لگاتے ہیں، کبھی پیچھے لگاتے ہیں


راکب مختار

No comments:

Post a Comment