Tuesday 30 August 2022

مرے نغمے بہاروں کے مرے مضراب رکھے تھے

 مِرے نغمے بہاروں کے، مِرے مضراب رکھے تھے

مِرے تکیے کے نیچے تو مِرے سب خواب رکھے تھے

جہاں پہ اب عجب دو نیم سے سلوٹ پریشاں ہے

وہاں تو کہکشاں رکھی تھی اور مہتاب رکھے تھے

یہیں پہ شوخ رنگوں سے سجی تصویر تھی کل کی

یہیں پہ ریشمی حرفوں کے کچھ سُرخاب رکھے تھے

مہک رکھی ہوئی تھی موسمِ گُل کی یہاں پر تو

چمکتی آرزوؤں کے تنِ سیماب رکھے تھے 

اسی کے پاس رکھی تھی کتابِ زیست بھی میری

ابھی تک اَن پڑھے جس میں بہت سے باب رکھے تھے

مِرے احساس کے جگنو،۔ مِری اُمید کی کِرنیں

یہیں پر تو مِرے جینے کے سب اسباب رکھے تھے

چُرا کر لے گیا ہے کون میری نیند میں جانے

چھُپا کر جو زمانے سے دُرِ نایاب رکھے تھے

ہوا نے ہی بکھیرا ہے اُڑا کر شہر میں سارے

نہالِ خشک کی صورت، مِرے جو خواب رکھے تھے


ثمینہ چیمہ

No comments:

Post a Comment