Tuesday 30 August 2022

اس کا چہرہ مجھے کبھی جب بھی نظر آتا ہے

 اس کا چہرہ مجھے کبھی جب بھی نظر آتا ہے

میری آنکھوں کا رنگ اور بھی نکھر جاتا ہے

اس لیے اس کی گلی سے گزرتا ہوں میں

اس سے آگے کہیں میرا بھی تو گھر آتا ہے

تیری زلفیں یوں کرتی ہیں سایہ مجھ پر

جیسے صحرا کی کڑی دھوپ میں شجر آتا ہے

تیری آنکھوں کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہوں

خوش قسمتی یہ ہے کہ تیرنے کا ہنر آتا ہے

تیری یادوں میں بہت آگے نکل آتا ہوں

جیسے مسافر اپنی منزل سے گزر آتا ہے

تیری یادوں کا سحر اس طرح ہے جکڑے مجھ کو

جیسے کوئی شخص جادو کے زیر اثر آتا ہے

جب تقابل تیرا کرتا ہوں حسیں چیزوں سے

ذہن میں میرے ہمیشہ لعل و گہر آتا ہے

نیکیاں کر کے جتلائے جو کہیں بھی حیدر

اشرف المخلوقات میں کیا وہ بھی بشر آتا ہے


وقاص حیدر

No comments:

Post a Comment