اس کا چہرہ مجھے کبھی جب بھی نظر آتا ہے
میری آنکھوں کا رنگ اور بھی نکھر جاتا ہے
اس لیے اس کی گلی سے گزرتا ہوں میں
اس سے آگے کہیں میرا بھی تو گھر آتا ہے
تیری زلفیں یوں کرتی ہیں سایہ مجھ پر
جیسے صحرا کی کڑی دھوپ میں شجر آتا ہے
تیری آنکھوں کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہوں
خوش قسمتی یہ ہے کہ تیرنے کا ہنر آتا ہے
تیری یادوں میں بہت آگے نکل آتا ہوں
جیسے مسافر اپنی منزل سے گزر آتا ہے
تیری یادوں کا سحر اس طرح ہے جکڑے مجھ کو
جیسے کوئی شخص جادو کے زیر اثر آتا ہے
جب تقابل تیرا کرتا ہوں حسیں چیزوں سے
ذہن میں میرے ہمیشہ لعل و گہر آتا ہے
نیکیاں کر کے جتلائے جو کہیں بھی حیدر
اشرف المخلوقات میں کیا وہ بھی بشر آتا ہے
وقاص حیدر
No comments:
Post a Comment