Sunday, 28 August 2022

اٹھ گئے یاں سے اپنے ہمدم تو

 اٹھ گئے یاں سے اپنے ہمدم تو

ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہم تو

یار آیا ہے، دیکھ لوں اس کو

اے اجل! دم لے تو کوئی دم تو

مونسِ تازہ ہیں یہ درد و الم

مُدتوں کا رفیق ہے غم تو

اپنا عاشق نہ جان تُو مجھ کو

اس کو جانے ہے ایک عالم تو

بے حلاوت نہیں خطِ لبِ یار

فی الحقیقت شکر ہے یہ سَم تو

دل بھی بہہ جائے گا تِرے ہمراہ

کاروانِ سرشک! ٹک تھم تو

کیوں رکھوں داغِ دل پر اے جوشش

داغ کو بہہ کرے ہے مرہم تو


جوشش عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment