اٹھ گئے یاں سے اپنے ہمدم تو
ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہم تو
یار آیا ہے، دیکھ لوں اس کو
اے اجل! دم لے تو کوئی دم تو
مونسِ تازہ ہیں یہ درد و الم
مُدتوں کا رفیق ہے غم تو
اپنا عاشق نہ جان تُو مجھ کو
اس کو جانے ہے ایک عالم تو
بے حلاوت نہیں خطِ لبِ یار
فی الحقیقت شکر ہے یہ سَم تو
دل بھی بہہ جائے گا تِرے ہمراہ
کاروانِ سرشک! ٹک تھم تو
کیوں رکھوں داغِ دل پر اے جوشش
داغ کو بہہ کرے ہے مرہم تو
جوشش عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment