کوچۂ یار سے نکل آیا
یعنی آزار سے نکل آیا
تُو جُھکانا ہی چاہتا تھا کہ میں
تیرے دربار سے نکل آیا
پاؤں رکھا تھا اس نے کمرے میں
پُھول دیوار سے نکل آیا
آخرِ کار مسئلے کا حل
بحث و تکرار سے نکل آیا
ہاتھ ملتے ہی رہ گئے سب لوگ
قافلہ غار سے نکل آیا
دوستو! دشت میں جنوں زادہ
شہرِ بے زار سے نکل آیا
ڈھونڈتے پِھر رہے تھے گاؤں میں
جُرم دستار سے نکل آیا
وحید اسد
No comments:
Post a Comment