اس سے پہلے کہ دھواں آنکھ میں آنے لگ جائے
یہ ضروری ہے دِیا، لَو کو بڑھانے لگ جائے
کتنا اچھا ہو کہ لہروں کو جلانے کے لیے
چاند، پانی پہ تِرا عکس بنانے لگ جائے
میرے مولا! تُو مجھے ایسی اذیت سے بچا
جب خریدار، مِرے دام گھٹانے لگ جائے
میں اگر وحشتِ ہجراں سے مودت کر لوں
پھر تو صحرا بھی مِری خاک اڑانے لگ جائے
مالکا! میرے مقدر میں بھی لکھ دینا تھا
کوئی ایسا کہ مِرے درد گھٹانے لگ جائے
دیکھ کر صبحِ مقدس کے نظاروں کو سعید
دل، پرندے کی طرح شور مچانے لگ جائے
مبشر سعید
No comments:
Post a Comment