Tuesday 30 August 2022

میں شعر کہہ سکوں مجھے اتنی مجال دے

 میں شعر کہہ سکوں مجھے اتنی مجال دے

مولا! تو میری فکر کی گدڑی کو لعل دے

اک وہ بشر ہے جس کی فرشتے کریں طلب

اک خاطرِ نصیب پرندے کو فال دے

اب دیکھ لے ہمارے نصیبِ سیاہ کو

جس پر پڑے نظر تِری اس کو اُجال دے

دوزخ کی آگ کو اسی دنیائے ہست میں

واعظ پہ بن پڑے تو وہ رندوں پہ ڈال دے

مرشد رے میری فکر کا خیمہ اداس ہے

مرشد! مِرے شعور کو تازہ جمال دے

بکھرا پڑا ہوں تیری گلی میں اِدھر اُدھر

آ دستِ گُل سے چُن مجھے اِذنِ بحال دے

احسان جو کیا ہے تو شکوہ بھی میرا سُن

میں نے کہا تھا مجھ کو تو رنج و ملال دے

فاقہ کشی نے چھین لی صورت غریب کی

اے کوزہ گر! اسے بھی نئے خد و خال دے

کچھ درد چیختے ہیں درِ دل پہ روز و شب

مطرب تو دُھن کو چھیڑ مِرے سُر کو تال دے

دلکش وجود اس کا دھنک سا ہے ہو بہو

کہنا بہار سے اسے پھولوں کی شال دے

پیوست ہو چکا ہے وفا کی زمین میں

سِکہ نہیں شجر کہ جو چاہے اُچھال دے


مزمل عباس شجر

No comments:

Post a Comment