Tuesday 30 August 2022

نظارہ دیکھنے کو اس جہاں کی آنکھیں ہیں

 نظارہ دیکھنے کو اس جہاں کی آنکھیں ہیں

یہ پھول پهول نہیں گلستاں کی آنکھیں ہیں

ہر آدمی کی بصارت میں فرق ہوتا ہے

بظاہر ایک سی سارے جہاں کی آنکهیں ہیں

وہ بولتا نہیں، پر ہم کو دیکھتا تو ہے

ستارے چاند بھی تو آسماں کی آنکھیں ہیں

ہم ایک دوسرے میں دیکھتے ہیں اپنا عکس

زمیں کا اوّلیں آئینہ یاں کی آنکھیں ہیں

کبیر! دیکھ نئے زاویے سے دنیا کو

پتا چلے کہ کسی نوجواں کی آنکھیں ہیں


انعام کبیر

No comments:

Post a Comment