نظارہ دیکھنے کو اس جہاں کی آنکھیں ہیں
یہ پھول پهول نہیں گلستاں کی آنکھیں ہیں
ہر آدمی کی بصارت میں فرق ہوتا ہے
بظاہر ایک سی سارے جہاں کی آنکهیں ہیں
وہ بولتا نہیں، پر ہم کو دیکھتا تو ہے
ستارے چاند بھی تو آسماں کی آنکھیں ہیں
ہم ایک دوسرے میں دیکھتے ہیں اپنا عکس
زمیں کا اوّلیں آئینہ یاں کی آنکھیں ہیں
کبیر! دیکھ نئے زاویے سے دنیا کو
پتا چلے کہ کسی نوجواں کی آنکھیں ہیں
انعام کبیر
No comments:
Post a Comment