Tuesday 30 August 2022

ہے میری ناؤ جسے بادباں میسر ہے

 ہے میری ناؤ جسے بادباں میسر ہے

سبھی کو ایسی سہولت کہاں میسر ہے

درست ہے کہ میں ہجرت سے پہلے بے گھر تھا

نصیب دیکھ، مجھے اب مکاں میسر ہے

میں جانتا ہوں مجھے نیند آنے والی ہے

میں جانتا ہوں کہ جائے اماں میسر ہے

قلیل وقت ہے، دریا کے پار جانا ہے

سنا ہے جو نہ یہاں ہے وہاں میسر ہے

قریب ہے کہ ثمر توڑ پاؤں شاخوں سے

حقیقتوں میں مجھے یہ گُماں میسر ہے


فضل عباس

No comments:

Post a Comment