ہے میری ناؤ جسے بادباں میسر ہے
سبھی کو ایسی سہولت کہاں میسر ہے
درست ہے کہ میں ہجرت سے پہلے بے گھر تھا
نصیب دیکھ، مجھے اب مکاں میسر ہے
میں جانتا ہوں مجھے نیند آنے والی ہے
میں جانتا ہوں کہ جائے اماں میسر ہے
قلیل وقت ہے، دریا کے پار جانا ہے
سنا ہے جو نہ یہاں ہے وہاں میسر ہے
قریب ہے کہ ثمر توڑ پاؤں شاخوں سے
حقیقتوں میں مجھے یہ گُماں میسر ہے
فضل عباس
No comments:
Post a Comment