Tuesday 30 August 2022

یہی پہچان ہے میری یہی میرا حوالہ ہے

 یہی پہچان ہے میری، یہی میرا حوالا ہے

کہ میں نے درد کو آغوش میں دن رات پالا ہے

مجھے کل سسکیاں لیتی ہوئی دھرتی نے بتلایا

مِرے بیٹے نے میری چھاتیوں کو روند ڈالا ہے

تِرے بے نور چہرے پر شرارت رقص میں کیوں ہے

ابھی تو آب سے موتی کو بس تھوڑا سا اچھالا ہے

نجانے کتنی جانوں کا ضیاع آنکھوں سے دیکھا ہے

بظاہر گھر کی کھڑکی میں فقط مکڑی کا جالا ہے

کسی درویش نے کیا دستِ شفقت رکھ دیا سر پر

نہ مہر خاموشی لب پر نہ اب پاؤں میں چھالا ہے

فلک حیران ہے جاوید آغا! اس کرامت پر

کہ میں نے ہاتھ سے اپنا نیا سورج نکالا ہے


جاوید آغا

No comments:

Post a Comment