جام اک بھر کے دے اے پیرِ خرابات مجھے
کر دے اب بہرِ خدا مستِ مئے ذات مجھے
محو فی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں
نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے
یار بر میں ہے، اِدھر جام لیے ہے ساقی
کس لیے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے
واعظا!! پند و نصیحت یہ کِسے کرتا ہے؟
دل لگے جس سے سُنا ایسی کوئی بات مجھے
چشمِ موسیٰ یہی کہتی ہے کہ اے جلوۂ طور
یاد اب تک ہے وہ اندازِ ملاقات مجھے
ذکر میرا وہ کِیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سُنا دیتے ہیں صلوات مجھے
زُلف اور رُخ کے تصور میں گزرتی ہے مِری
جی بہلنے کا یہی شُغل ہے دن رات مجھے
رِند مشرب ہوں، نہیں زہد و عبادت سے غرض
شاد! آتی نہیں پابندئ اوقات مجھے
سر کشن پرشاد شاد
No comments:
Post a Comment