Monday, 29 August 2022

جام اک بھر کے دے اے پیر خرابات مجھے

 جام اک بھر کے دے اے پیرِ خرابات مجھے​

کر دے اب بہرِ خدا مستِ مئے ذات مجھے​

محو فی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں​

نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے​

یار بر میں ہے، اِدھر جام لیے ہے ساقی​

کس لیے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے

​واعظا!! پند و نصیحت یہ کِسے کرتا ہے؟​

دل لگے جس سے سُنا ایسی کوئی بات مجھے​

چشمِ موسیٰ یہی کہتی ہے کہ اے جلوۂ طور​

یاد اب تک ہے وہ اندازِ ملاقات مجھے​

ذکر میرا وہ کِیا کرتے ہیں کس خوبی سے​

بھری محفل میں سُنا دیتے ہیں صلوات مجھے​

زُلف اور رُخ کے تصور میں گزرتی ہے مِری​

جی بہلنے کا یہی شُغل ہے دن رات مجھے​

رِند مشرب ہوں، نہیں زہد و عبادت سے غرض​

شاد! آتی نہیں پابندئ اوقات مجھے​


سر کشن پرشاد شاد

No comments:

Post a Comment