اس کے کرم سے ہے نہ تمہاری نظر سے ہے
موسم دلوں کا درد کے روشن شجر سے ہے
جس سے مِرے وجود کے پہلو عیاں ہوئے
شاید مِرا معاملہ اس کے ہنر سے ہے
حائل ہوا نہ کوئی تعلق کی راہ میں
دائم تمام سلسلہ بنتِ سحر سے ہے
آیا نہ وہ حرم میں امامت کے واسطے
کچھ ربط ہی عجیب اسے اپنے گھر سے ہے
اپنی گلی میں نسب ہے وہ سنگِ بے نوا
کہتے ہیں گرچہ واسطہ اس کو سفر سے ہے
اس کے سوا نہ دل کی حکایت کوئی پڑھے
منسوب میری داستاں اک دیدہ ور سے ہے
محسوس کس طرح ہو مجھے دھوپ کا عذاب
الماس! کاروبار مِرا بادِ تر سے ہے
حمید الماس
No comments:
Post a Comment