جو شخص تجھ کو فرشتہ دکھائی دیتا ہے
وہ آئینے سے ڈرا سا دکھائی دیتا ہے
کیا تھا دفن جسے فرش کے تلے کل رات
وہ آج چھت سے اترتا دکھائی دیتا ہے
تِری نگاہ میں ممکن ہے کچھ اٹک جائے
مجھے تو صرف اندھیرا دکھائی دیتا ہے
سوال ذہن میں چبھتے ہیں نشتروں کی طرح
یہ خون بھی مجھے ہوتا دکھائی دیتا ہے
خلا میں ڈوب چکی ہے نگاہ جب میری
وہ پوچھتے ہیں تجھے کیا دکھائی دیتا ہے
نگلتا جاتا ہے چپ چاپ خشک جنگل اسے
یہ آفتاب تو ٹھنڈا دکھائی دیتا ہے
نقاب بدلو کچھ ایسے کہ معجزہ ہو جائے
ہجوم ورنہ بکھرتا دکھائی دیتا ہے
تمہاری یاد کے دریا تمام سُوکھ چلے
جہاں تہاں مجھے صحرا دکھائی دیتا ہے
صدائیں گونجتی رہتی ہیں رات بھر کس کی
مکان ویسے تو سُونا دکھائی دیتا ہے
جو پیڑ تم نے لگایا تھا میرے آنگن میں
وہ اس برس مجھے گرتا دکھائی دیتا ہے
عابد عالمی
No comments:
Post a Comment