Saturday 27 August 2022

درد دل میں اگر نہیں ہوتا

 درد دل میں اگر نہیں ہوتا

دامنِ یار تر نہیں ہوتا

مصلحت کچھ تو ہو گی ورنہ وہ

اجنبی جان کر نہیں ہوتا

دل نہ ہوتا اگر مِرا ذی حِس

حسرتوں کا کھنڈر نہیں ہوتا

چاند پِھرنے لگا ہے گلیوں میں

جانے کیوں بام پر نہیں ہوتا

بے خیالی میں ٹھیس لگتی ہے

رستہ ہی پُر خطر نہیں ہوتا

بیٹھ کر دوربین کے پیچھے

آدمی دیدہ ور نہیں ہوتا

نذر یہ دور ہے خوشامد کا

نام اب کام پر نہیں ہوتا


نذر فاطمی

No comments:

Post a Comment