Saturday, 27 August 2022

پھر تسلسل مری سوچوں کا بکھر جائے گا

 پھر تسلسل مِری سوچوں کا بکھر جائے گا

وہ تصوّر میں مِرے ساتھ ہی مر جائے گا

ہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا

“وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا”

جس کی خاطر ہے کِیا میں نے سفر صدیوں کا

کیا مِرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گا

پھر جدائی کے اسی خوف نے آ گھیرا ہے

اب کسی طور بھی اس دل سے نہ ڈر جائے گا

ماسوا میرے، کوئی اور کہاں ہے اس کا

مجھ سے رُوٹھا بھی کسی دن تو کدھر جائے گا

چند خوشیوں نے ردا! دل کو جِلا بخشی ہے

رُت جو بدلی تو یہ دل بھی مِرا مر جائے گا


فوزیہ اختر ردا

No comments:

Post a Comment