Saturday, 27 August 2022

کچھ محبت میں عجب شیوۂ دلدار رہا

 کچھ محبت میں عجب شیوۂ دلدار رہا

مجھ سے انکار رہا غیر سے اقرار رہا

کچھ سروکار نہیں جان رہے یا نہ رہے

نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا

شبِ خلوت، وہی حجت، وہی تکرار رہی

وہی قصہ، وہی غصہ، وہی انکار رہا

طالبِ دید کو ظالم نے یہ لکھا خط میں

اب قیامت پہ مِرا وعدۂ دیدار رہا

حالِ دل بزم میں اس شوخ سے ہم کہہ نہ سکے

لبِ خاموش کی صورت لبِ اظہار رہا

کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے

رات بھر کون تِری یاد میں بیدار رہا

اک نظر نزع میں دیکھی تھی کسی کی صورت

مدتوں قبر میں بے چین دلِ زار رہا

دل ہمارا تھا ہمارا تھا ہمارا، لیکن

ان کے قابو میں رہا ان کا طرفدار رہا

عمر ہنس کھیل کے اس طرح گزاری اے ہجر

دوست کا دوست رہا، یار کا میں یار رہا


ناظم علی ہجر

ناظم علی خاں ہجر

No comments:

Post a Comment