کہیے کن لفظوں میں اشکوں کی کہانی لکھوں
معترض آپ لہو پر ہیں تو پانی لکھوں
ان کو اپنا سا لگے، اور ہو قصہ میرا
دل کی خواہش ہے کہ اک ایسی کہانی لکھوں
داغ جتنے بھی ہیں گلزارِ تمنا میں میرے
پھول کی طرح انہیں تیری نشانی لکھوں
لاکھ افسانے تراشے ہیں نئے دنیا نے
میں تو جب جب بھی لکھوں بات پرانی لکھوں
میرے خامے کو یہ توفیق عطا کر یا رب
خون کو خون لکھوں پانی کو پانی لکھوں
عشق ہے زیست کی رگ رگ میں لہو کی مانند
جاوِداں عشق کو کس طرح میں فانی لکھوں
ہاں میں غازی ہوں مِرے فن کا تقاضا ہے یہی
خون روئے جو پڑھے وہ بھی کہانی لکھوں
یونس غازی
No comments:
Post a Comment