Saturday 27 August 2022

ستم کا تیر جو ہے وہ تری کمان میں ہے

 ستم کا تیر جو ہے وہ تِری کمان میں ہے

جو کہہ چکا ہوں میں وہ ہی مِرے بیان میں ہے

میں خالی جسم ہی گھر سے نکل کے آیا ہوں

مِری جو جان ہے، اب بھی اسی مکان میں ہے

اسی لیے تو سبھی ہم پہ ہو گئے حاوی

یہ پھوٹ آپسی جو اپنے خاندان میں ہے

مِری طرف جو یہ دیکھے تو اس سے بات کروں

یہ میرا دوست مگر جانے کس کے دھیان میں ہے

اگر میں چاہوں حریفوں پہ چوٹ بھی کر دوں

سخن کا تیر اک ایسا مِری کمان میں ہے

غرور جسم پہ، اور جان پہ ارے توبہ

نہ جانے مٹی کا پُتلا یہ کس گُمان میں ہے

مکاں پہ جا کے ذرا اس کے ٹھاٹ دیکھ نظیر

گدا بھی آج کا یہ کتنی آن بان میں ہے


نظیر میرٹھی

No comments:

Post a Comment