عارفانہ کلام نعتیہ کلام
بات بنتی ہے تو کچھ بات بڑھا دی جائے
نعت کی بزم پھر اک بار سجا دی جائے
درد کے ماروں کو طیبہ کی فضا دی جائے
جانے والو! میری عرضی بھی سنا دی جائے
موت اک شرط پہ نزدیک نہیں آئے گی
جان سرکارؐ کی حرمت پہ لٹا دی جائے
دیکھنے کے لیے آنکھیں جو خدایا دی ہیں
رخِ سرکارؐ کی زیارت سے انہیں دوا دی جائے
تساں جو آکھو من لاں گے پیٹ تے پتھر بن لاں گے
ہجرِ طیبہ کی نہ ہمیں لیکن یہ سزا دی جائے
مجھ سے چھن جائے زمانے کی ہر اک شے صائم
ہجرِ طیبہ کی نہ لیکن مجھے سزا دی جائے
صائم علوی
No comments:
Post a Comment