شرف یہ آج ملا غم تمام کے بعد
کہ نام آنے لگا میرا ان کے نام کے بعد
رہا نہ کوئی بھی محروم دورِ جام کے بعد
میں کیا کروں کہ میں تشنہ ہوں اذن عام کے بعد
نہ جانے کیسی پلائی تھی تم نے نظروں سے
خمار باقی ہے ترکِ سبُو و جام کے بعد
شگفتہ پھول بھی خاروں کی مثل چبھتے ہیں
بہارِ دورِ تمنا کے اختتام کے بعد
ہمارے آئینۂ دل پہ میل چھایا ہے
غمِ حبیب کے اک عکسِ ناتمام کے بعد
رہِ حیات کو آساں بنا لیا ہم نے
تمہارا نام پکارا ہر ایک گام کے بعد
نہ جانے ساقی و صہبا پہ کیا گزرتی ہے
وقارِ بادہ کشاں آہِ تشنہ کام کے بعد
آہ سنبھلی
No comments:
Post a Comment