وہ مِرا سارے کا سارا تو نہیں ہو سکتا
اس طرح یار! گزارا تو نہیں ہو سکتا
مجھ سے چاہے جو مِرا ساتھ دمِ آخر تک
ایسے ساتھی سے کنارہ تو نہیں ہو سکتا
وہ نہ یوسف سا حسیں ہے نہ مجھے اس کی طلب
پھر بھی اس بِن کوئی چارہ تو نہیں ہو سکتا
وہ مجھے کہتا ہے تم سینے کا چھالہ ہو مِرے
زخم پھر بخت کا تارہ تو نہیں ہو سکتا
جو اداسی بھی مِرے چہرے پہ ہے، ذاتی ہے
مجھ میں ہر رنگ تمہارا تو نہیں ہو سکتا
نمل بلوچ
No comments:
Post a Comment