Saturday 27 August 2022

چند تنکے تھے جو انجم آشیانے کے لیے

 چند تنکے تھے جو انجم آشیانے کے لیے

برق ان کو بھی چلی آئی جلانے کے لیے

آرزوئیں، حسرتیں، وعدہ و پیمان وفا

سرخیاں کتنی ملی ہیں اک فسانے کے لیے

عمر بھر روتے رہے اشکوں سے دامن تر رہا

عمر بھر ترسا کیے ہم مسکرانے کے لیے

کچھ تو کرنا ہی پڑے گا اے حیات! مستعار

کاروبار زندگی انجم! چلانے کے لیے

شعر گوئی کی میسر ہے فراغت اب کسے

دام دنیا میں پھنسے ہم آب و دانے کے لیے


انجم جعفری

No comments:

Post a Comment