چند تنکے تھے جو انجم آشیانے کے لیے
برق ان کو بھی چلی آئی جلانے کے لیے
آرزوئیں، حسرتیں، وعدہ و پیمان وفا
سرخیاں کتنی ملی ہیں اک فسانے کے لیے
عمر بھر روتے رہے اشکوں سے دامن تر رہا
عمر بھر ترسا کیے ہم مسکرانے کے لیے
کچھ تو کرنا ہی پڑے گا اے حیات! مستعار
کاروبار زندگی انجم! چلانے کے لیے
شعر گوئی کی میسر ہے فراغت اب کسے
دام دنیا میں پھنسے ہم آب و دانے کے لیے
انجم جعفری
No comments:
Post a Comment