Friday, 19 August 2022

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی دیہاتی لڑکی

 ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی


وہ مرمریں بُت وہ مہ جبیں

حُسن کا کوہِ طُور وہ دلنشیں

اس کا لہجہ شرمگیں شرمگیں

ایک لکھاری کو دل دے بیٹھی

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی

وہ جس کی دنیا اس کی چاردیواری

فضاؤں میں اڑنے لگی

جس کو وہ جانتی تک نہ تھی

اس کو اپنا سب کچھ ماننے لگی

لفظ معتبر، کلام بے مثال

بس یہی خوبی اس کو لے ڈوبی

اور لکھاری جانتا تک نہ تھا

یہ دل لگی تھی کہ دل کی لگی

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی

اس نے شہر کا بس نام سنا تھا

وہ گاؤں کی الہڑ مٹیارن

وہ ندی کی دوست وہ بنجارن

اس کا عشق اس کا اعتبار

اس کی وفا اس کا پیار

سب محترم

مگر لکھاری عشق کہاں سے لائے

ٹوبہ کا پھول

کراچی میں کیسے لگائے

عشق کوئی کھیل نہیں

عشق فون کا میل نہیں

یہ ملاپ ہے روحوں کا

کِھل نہیں سکتا

سنگ مرمر کی زمیں پر

پھول وہ جنگلی

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی

ہاں بتایا اس نے

اس کا دامن کسی اجنبی نے نہیں دیکھا

ہاں بتایا اس نے

وہ اپنے گھرکے صحن میں بڑی ہوئی ہے

گھر سے کالج کے سفر میں

بازار سے خالہ تک کے گھر میں

وہ حصار میں بڑی ہوئی ہے

باپ کی نگاہیں، ماں کی نگاہیں، بھائی کی نگاہیں

وہ نگاہوں ہی نگاہوں میں بڑی ہوئی ہے

ہاں بتایا اس نے

اس کی روایات اس کا سرمایہ ہیں

وہ مر تو سکتی ہے

حدود کو پار کر نہیں سکتی

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی

لکھاری کا بھی عجیب مسئلہ ہے

لکھاری کو احساس ہے جذبوں کا

مگر وہ درد کہاں سے لائے

جو روح کو بھی چیر دیتا ہے

لکھاری عشق کر نہیں سکتا

اس کا عشق تو اس کے لفظ ہیں

لکھاری تو لفظوں کا پجاری ہے

لفظ اصل، لفظ دھرم

لفظ خدا، لفظ کرم

یہ لفظوں کی بساط ہی تو ہے

لپٹ گئی تو کیا بچے گا

چلومان لیا! عشق نہیں تو رواج ہی سہی

لفظوں کی بساط پر

ایک حسن کی بازی کھیل لیتے ہیں

کیا جاتا ہے روایت تو نبھانی ہے

عشق نہ سہی

عشق سے شین ادھار لے کر

ایک شادی کا بندھن ہی باندھ لیتے ہیں

مگر کہاں ٹوبے کی وہ گلیاں

جس کو خود اس پری نے نہیں دیکھا

لکھاری کیا کرے گا

کوئی شہنشاہ تو ہے نہیں کہ

لکھاری لشکر کشی کرے گا


عثمان غازی

No comments:

Post a Comment