کہیں کباڑ کی املاک میں پڑے ہوتے
تِرے بغیر تو ہم خاک میں پڑے ہوتے
تِرا ہُنر ابھی کندن سے آشنا ہی نہیں
نہیں تھے راکھ کہ ہم راکھ میں پڑے ہوتے
بجا ہے بخت کی تقسیم سے گِلہ اپنا
تِرے اسیر تو افلاک میں پڑے ہوتے
نحیف پل کی خطا نے بدل دیا نقشہ
وگرنہ، آدمی لولاک میں پڑے ہوتے
عجیب دُھن میں سنورنے کے مرحلے گزرے
یہی تھا شوق کہ بس چاک میں پڑے ہوتے
خیال برہنہ ہوتے تو سوچ کیا ہوتا
عجیب چھید سے پوشاک میں پڑے ہوتے
ابھی تو سمت پس و پیش کا معمہ ہے
نہیں تو مسئلے ادراک میں پڑے ہوتے
یہ تو عطا کے کمالات ہیں مرے ساحر
وگرنہ دھول تھے خاشاک میں پڑے ہوتے
علی ساحر
No comments:
Post a Comment