عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر عباس علمدار
دریا میں ہوا غُل کہ وہ درِ نجف آیا
الیاسؑ و خضرؑ بولے ہمارا شرف آیا
عباسؑ، شہنشاہِ نجف کا خلف آیا
پابوس کو موتی لیے دستِ صدف آیا
یاد آ گئی پیاسوں کی جو حیدرؑ کے خلف کو
دل خون ہوا دیکھ کے دریا کی طرف کو
دریا سے مخاطب ہوا حیدرؑ کا وہ جانی
کیوں نذرِ سکینہؑ میں بھروں مشک میں پانی
آئی ندا؛ شوق سے اے جعفرِؑ ثانی
پر پیاسوں کی تقدیر میں ہے ُخشک زبانی
جز صبر، دوا تشنہ دہانی کی نہیں ہے
تقدیر میں ایک بوند بھی پانی کی نہیں ہے
مرزا دبیر
سلامت علی دبیر
No comments:
Post a Comment