ہیں میرے حصے کے
سوگ کتنے
ہزاروں ہی روگ
ڈھیروں ماتم
جو منتظر ہیں
انہیں مناؤں
میں اشک آنکھوں میں بھینٹ کر دوں
میں بال نوچوں
میں گال پیٹوں
گریباں پھاڑوں
مگر میں کیسے؟
کہ میں تو میں ہوں
بلوچ زادی
غرور پرور
انا سراپا
میں ہار مانوں تو کیسے مانوں
یہ مجھ سے یوں بھی نہ ہو سکے گا
تو کیا کروں میں
تمام ہی سوگ
روگ جتنے ہیں
سارے ماتم
کسی کے کینڈل ڈنر کی ٹیبل پہ جا کے رکھ دوں
یا ٹوٹے اُجڑے مزار پر اک دیا جلا دوں
کہ جس سے اُمید اور دعاؤں کی لو بڑھے گی
مگر میں یہ بھی تو جانتی یوں
دِیے تلے تو اندھیرا ہو گا
جو شئے اندھیرے میں ہو کسی کو نہیں دکھے گی
وہ سوگ سارے وہ سارے ماتم
منائے جانے کے منتظر ہیں
مگر میں پھر بھی
دِیے پہ رکھ کے دِیا جلاؤں
حیات بانٹوں؟
کہیں گلابوں کی فصل بوؤں
یا چھپ کے روؤں؟
کوئی بتائے کہ کیا کروں میں
ثمین بلوچ
No comments:
Post a Comment