Friday, 19 August 2022

لوگ حیران ہیں میں پریشان ہوں مجھ سے دیوانگی میں یہ کیا ہو گیا

 لوگ حیران ہیں میں پریشان ہوں مجھ سے دیوانگی میں یہ کیا ہو گیا

راز رکھا چھپا کر جسے آج تک، اس کا اظہار کیوں برملا ہو گیا

تیری وادیدگی کی ادا دلبرا! میری وارفتگی کا بہانہ ہوئی

میری وارستگی کو نہ الزام دے اتفاقاً ہی بس حادثہ ہو گیا

ناصحا! خود ستائی مبارک تجھے پارسا ہے تو رہ، پر خدا تو نہیں

میں خودی میں رہوں بیخودی میں رہوں یہ تو ذاتی سا اک فیصلہ ہو گیا

بے خودی نے خودی کو سہارا دیا رقص کرنے لگیں ہر سو سرشاریاں

جو خودی میں ہوا تھا قضا ناصحا! بے خودی میں وہ سجدہ ادا ہو گیا

ماند پڑنے لگی میری آزردگی تیرگی چھٹ گئی صاف دکھنے لگا

صحنِ دل میں چراغاں سا ہونے لگا شوق جب سے مِرا رہنما ہو گیا

تیری فرزانگی ہو مبارک تجھے، میری دیوانگی مجھ کو راس آ گئی

لوگ پتھر اٹھا کر لگے مارنے، اور مِرا شوق دو آتشہ ہو گیا

جو بھی مہمان آیا اسی سے کہا آئیے، بیٹھیے، لیجیے، پیجیے

سب کی خاطر مدارت مِرا فرض تھا، شیخ کس بات پر سیخ پا ہو گیا

میری آوارگی میرے کام آ گئی،۔ ہمسفر بن گئی میری آشفتگی

کلفتیں بن گئیں راحتیں خود بخود، لادوا درد اپنی دوا ہو گیا

میں ہوں ننگِ خلائق مِرے ہمنوا! فرق پڑتا ہے کیا تہمتوں سے مجھے

تیری عزت بنی کی بنی رہ گئی، ایک چپ سے سبھی کا بھلا ہو گیا

تیری چارہ گری کو میں کیا نام دوں، زخم دیتے ہو مرہم لگاتے ہو پھر

گاہے بے گانگی گاہے اپنائیت، اجنبی تو کبھی آشنا ہو گیا

جاوں قربان میں تیرے انصاف پر کیا کیا فیصلہ آفریں آفریں

ایک مے نوش سولی چڑھایا گیا اور جو خوں نوش تھا پارسا ہو گیا

تیری دہیدہ روی کی بھی کیا بات ہے کیا پرکھ تُو نے لعلوں زغالوں میں کی

کوئی جھک کے رہا بے ثمر، عمر بھر کوئی پل بھر میں ہی گلرسا ہو گیا

اک مِری آزری بھی اکارت گئی،۔ دوسری لگ گئی تہمتِ کافری

الفی! پتھر تراشا تھا جو ہاتھ سے، دیکھتے دیکھتے وہ خدا ہو گیا


افتخار حسین الفی

No comments:

Post a Comment