Saturday, 12 November 2016

اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا

اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا
رستے میں کچھ شجر تو ہیں سایا نہیں تو کیا
رہتا ہے کوئی شخص مِرے دل کے آس پاس
میں نے اسے قریب سے دیکھا نہیں تو کیا
تُو ہی بتا کہ چاہیں تجھے اور کس طرح
یہ تیری جستجو یہ تمنا نہیں تو کیا
ہم دور دور رہ کے بھی چلتے رہے ہیں ساتھ
ہم نے قدم قدم سے ملایا نہیں تو کیا
ویسے ہمیں تو پیاس میں دریا کی تھی تلاش
اب یہ سراب ہی سہی، دریا نہیں تو کیا
سوچا بھی تم نے دشت چمن کیسے بن گیا
محنت کا یہ عرق یہ پسینا نہیں تو کیا
محسنؔ مِری نگاہ کو اچھا لگا وہی
دنیا کی وہ نظر میں جو اچھا نہیں تو کیا

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment