Tuesday 29 November 2016

وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں

وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں
اس کو دیکھو آس کا مارا پگلا جی، گھبرایا نہیں
بات ہماری جھوٹ لگے تو اسکی گلی میں جا کر پوچھ
شام ہوئی گھر سے نکلا تھا، بھور بھئی، گھر آیا نہیں
کاجل گالوں پر پھیلا ہے، پیشانی بھی گیلی ہے
صبح کا چاند اور شام کا سورج کون گہن گہنایا نہیں
ندی کنارے بھیڑ لگی ہے، بجرا کوئی کھیتا ہے
ڈوبنے والا ڈوب رہا ہے تو دیکھنے کو آیا نہیں
کون اسے چھپ چھپ کر دیکھے کون اسے دل میں رکھ لے
وہ تو ایسا ہرجائی ہے آج تلک پچھتایا نہیں
بستی بستی آگ لگے ہے، مسجد مندر سب جلے
ایک زمین پر ایک گگن ہے، اوم نہیں، خدایا نہیں
اب یوں چپ چپ رہنا چھوڑو ہمری سنو اقبال متینؔ
کوئی کسی کا میت نہیں یاں اپنا نہیں جو، پرایا نہیں

اقبال متین

No comments:

Post a Comment