وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں
اس کو دیکھو آس کا مارا پگلا جی، گھبرایا نہیں
بات ہماری جھوٹ لگے تو اسکی گلی میں جا کر پوچھ
شام ہوئی گھر سے نکلا تھا، بھور بھئی، گھر آیا نہیں
کاجل گالوں پر پھیلا ہے، پیشانی بھی گیلی ہے
ندی کنارے بھیڑ لگی ہے، بجرا کوئی کھیتا ہے
ڈوبنے والا ڈوب رہا ہے تو دیکھنے کو آیا نہیں
کون اسے چھپ چھپ کر دیکھے کون اسے دل میں رکھ لے
وہ تو ایسا ہرجائی ہے آج تلک پچھتایا نہیں
بستی بستی آگ لگے ہے، مسجد مندر سب جلے
ایک زمین پر ایک گگن ہے، اوم نہیں، خدایا نہیں
اب یوں چپ چپ رہنا چھوڑو ہمری سنو اقبال متینؔ
کوئی کسی کا میت نہیں یاں اپنا نہیں جو، پرایا نہیں
اقبال متین
No comments:
Post a Comment