عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ذوالفقار حیدری نواں حصہ
اورنگ کے لیے نہ زر و تاج کے لیے
کوشاں تھی اس زمین کی معراج کے لیے
دانا تھی، دور بیں تھی، حقیقت شعار تھی
اسرارِ رزم و بزم کی آئینہ دار تھی
عہدِ مصالحت ہو تو حرفِ قرار تھی
خاموش رہ کے فاتحِ آلام ہو گئی
عہدِ حسن میں صلح کا پیغام ہو گئی
خندق میں حُسنِ جلوہ نمائی دکھا گئی
خیبر میں زورِ عقدہ کشائی دکھا گئی
صفین میں کمالِ صفائی دکھا گئی
تیغِ خدا تھی، شانِ خدائی دکھا گئی
ہر معرکے میں ناخنِ تدبیر ہو گئی
اور کربلا میں صبر کی تصویر ہو گئی
کب دشتِ نینوا میں برائے وغا چلی
ایفائے عہد کے لیے وہ با وفا چلی
منزل تھی امتحاں کی بہ صبر و رضا چلی
بہرِ وفائے جنگ سرِ کربلا چلی
برقِ الٰہ، موجۂ تسنیم ہو گئی
محرابِ عشق میں سرِ تسلیم ہو گئی
غمخوارِ اہلِ بیت تھی صحرا میں ذوالفقار
بے کس کی دستگیر، غریبوں کی چارہ کار
کنبے کی پاسبان، رفیقوں کی پاسدار
خیبر شکن کی تیغ تھی اللہ کا حصار
محفوظِ غم، ہر اہلِ یقیں تھا اسی جگہ
اسلام خود پناہ گزیں تھا اسی جگہ
قرآنِ حق، مؤیدِ کارِ خدا رہی
سارے منافقانِ جہاں سے خفا رہی
اصنامِ دہر کے لیے برقِ بلا رہی
ہر دور کے یزید سے جنگ آزما رہی
شمیم کرہانی
No comments:
Post a Comment