Sunday 27 November 2016

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے 
دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے
شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئ فرق 
دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے
ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق 
غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے
یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں، لیکن 
صہبا بھی وہی مستئ صہبا بھی وہی ہے
جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا 
جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے
یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل 
اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے
انسان تو بے سود ہی اِتراتا ہے خود پر 
ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے
ہم درد کے ماروں کی شکایت بھی اسی سے 
ہم درد کے ماروں کا مسیحا بھی وہی ہے
جو لطف و کرم اسکے ہیں محدود نہیں عرشؔ 
راحت کی ندی، فیض کا دریا بھی وہی ہے

عرش صہبائی

No comments:

Post a Comment