عارفانہ کلام حمدیہ کلام
دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے
دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے
شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئ فرق
دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے
ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق
یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں، لیکن
صہبا بھی وہی مستئ صہبا بھی وہی ہے
جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا
جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے
یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل
اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے
انسان تو بے سود ہی اِتراتا ہے خود پر
ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے
ہم درد کے ماروں کی شکایت بھی اسی سے
ہم درد کے ماروں کا مسیحا بھی وہی ہے
جو لطف و کرم اسکے ہیں محدود نہیں عرشؔ
راحت کی ندی، فیض کا دریا بھی وہی ہے
عرش صہبائی
No comments:
Post a Comment