جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا
اس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہو جانا
کوئی انداز ہے رہ رہ کے خفا ہو جانا
اپنے بندوں سے یہ کھچنا کہ خدا ہو جانا
ضبطِ غم سے مِری آہوں کے شرارے کجلائے
اپنے نیرنگئ انداز کا اعجاز تو دیکھ
ابھی شوخی تھی، ابھی اس کا حیا ہو جانا
اس زمانے میں نہیں کوئی کسی کا ہمدرد
دل کے دو حرف ہیں، ان کو بھی جدا ہو جانا
ضعف سے اٹھ نہیں سکتا تیرا بیمارِ فراق
اے اجل! تُو ہی کرم کر کے ذرا ہو جانا
شاعرِؔ زار! نہیں کوئی بھی معیار مرا
پھر بھی مشہور ہے کھوٹے کا کھرا ہو جانا
آغا شاعر قزلباش
No comments:
Post a Comment