عمر گریزاں کے نام
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے
خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے
اس سے کہتا ہوں تمنا کے لب و لہجے میں
اے مری جان! مری لیلئ تابندہ جبیں
سنتا ہوں تُو ہے پری پیکر و فرخندہ جمال
سنتا ہوں تُو ہے مہ و مہر سے بھی بڑھ کے حسیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں کہ ابھی تک میں نے
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں
اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں
شام کو ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب
شب گزاری کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں
اور کرتا رہا اپنے لیے ہموار زمیں
آج لیتا ہوں جواں سوختہ راتوں کا حساب
جن کو چھوڑ آیا ہوں ماضی کے دھندلکے میں کہیں
صرف نقصان نظر آتا ہے اس سودے میں
قطرہ قطرہ جو کریں جمع تو دریا بن جائے
ذرہ ذرہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا
اپنی نادانی سے انجام سے غافل ہو کر
میں نے دن رات کیے جمع خسارہ بیٹھا
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
اے مری جان! مری لیلئ تابندہ جبیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اختر الایمان
No comments:
Post a Comment