عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری ساتواں حصہ
پیغامِ انقلاب تھی شمشیرِ حیدری
پھیلا رہی تھی دہر میں آئینِ ہمسری
دیتی نہ تھی گدا پہ سلاطیں کو برتری
مطلق اسے پسند نہ تھی نابرابری
بڑھتا تھا اہلِ زر جو کوئی گھات کے لیے
صحنِ چمن، جبینِ عرق آشنا کی ضو
عشرت، شبابِ تیشۂ محنت کی صبحِ نو
کھیتی چراغِ خونِ جفا کش کی سبز لو
لیکن جفا نصیب کے حصے میں نانِ جو
یہ ظلم بے سزا یہ شقاوت معاف تھی
تلوار اس طریقِ عمل کے خلاف تھی
سونا بغیرِ عزم اگلتی نہیں زمیں
کنکر لہو کے رنگ سے بنتا ہے اک نگیں
گلشن کھلے، جو خون سے تر ہو گئی جبیں
کمہلا گئی حیات تو دھرتی ہوئی حسیں
لیکن ملا نہ کوئی صلہ مردِ کار کو
غصہ اسی نظام پہ تھا ذوالفقار کو
انسان آفریدۂ پروردگار ہے
پھر کیوں کوئی دکھی کوئی سرمایہ دار ہے
کوئی زیاں نصیب، کوئی سود خوار ہے
اے انقلاب! آ، تجھے کیا انتظار ہے
تیغِ علی ہے درد کا درماں لیے ہوئے
صبحِ بہارِ عشرتِ انساں لیے ہوئے
ایماں کی سمت، کفر کا رخ موڑتی رہی
ناوک جہالتوں کی طرف چھوڑتی رہی
جہل و غرور و کبر کا سر پھوڑتی رہی
ذہنِ عرب کے سارے صنم توڑتی رہی
تکبیرِ حق بتوں کو سناتی چلی گئی
پتھر پہ اک لکیر بناتی چلی گئی
لا تُفسِدُوا کی شرح تھی ہر ضربِ ذوالفقار
یعنی زمینِ حق کو بناؤ نہ کارزار
کیوں پھر رہے ہو دہر میں تم صورتِ غبار
اسلام دے رہا ہے تمہیں زندگی کا پیار
کیسے رہیں زمیں پہ طریقہ سکھا گئی
جینے کا آدمی کو سلیقہ سکھا گئی
محکم تھی آرزو میں، ارادے میں تھی اٹل
ہر ضرب اس کی ٹھیک تھی، ہر زخم برمحل
حکمِ خدائے پاک سے تھی مائلِ جدل
قرآں تھا ایک علم، تو شمشیر اک عمل
شمیم کرہانی
No comments:
Post a Comment